Friday, 18 September 2015

حیدرآباد میں صحافت کے چند اوراق


حیدرآباد میں صحافت کے چند اوراق

ہفتہ روزہ نجم السحر

سندھی اور اردو میں ہفتہ روزہ نجم السحر کا اجراء بھٹو دور میں ہوا۔ اس کے پبلشر اور ایڈیٹر رحیم بخش برق تھے، رحیم بخش برق کا بائیں بازو کی طرف جھکاؤ تھا اور ان کا شمار بیجنگ نواز مکتبہ فکر سے تھا۔ رحیم بخش برق حیدرآباد پرنٹنگ پریس ورکرز یونین کے صدر رہے۔ مالی مشکلات کے باعث انہیں اپنا ہفتہ روزہ بند کرنا پڑا۔ 

1975 میں انہوں نے روزنامہ سندھ نیوز جو کہ شیخ عزیز کی زیر ادارت نکلتا تھا بطور سب ایڈیٹر ملازمت کی ۔ جہاں ان کا ’’ آج کے دن‘‘ (’’اجوکو ڈیہن ‘‘) نام سے کالم بہت مقبول ہوا، اس کالم کے تحت انہوں نے سندھ کی شخصیات، واقعات کو بیان کیا تھا۔ سندھ نیوز میں وہ سنڈے ایڈیشن کے بھی انچارج رہے۔
انہوں نے ریڈیو پاکستان پر بطور ترجمہ نگار اور تبصرہ نگار بھی خدمات انجام دیں۔ ریڈیو پاکستان حیدرآباد پراسکرپٹ رائٹنگ کا کام کرتے رہے۔ ان کا پروگرام ٹاور سے ٹاور تک بہت مقبول ہوا۔ اس میں انہوں نے سندھ بھر کا دورہ کیا اور ہر شہر میں موجود ٹاور کی تاریخ قلمبند کی۔اس پروگرام پر انہیں ریڈٰیو پاکستان کی جانب سے ایوارڈ بھی ملا۔
نوے کے عشرے میں وہ روزنامہ پکار سکھر اور بعد میں روزنامہ قربانی کے ایڈیٹر رہے ۔ 1998 میں انتقال کرگئے۔ 


نوائے جنگ 

ضیائالحق کے دور میں حیدرآباد پریس کلب کے صدر نثار چنا نے ہفتہ روزہ نوائے جنگ کا اجراء کیا۔ لیکن مارشل لاء کی سختیوں کے باعث یہ ہفتہ روزہ زیادہ عرصہ چل نہیں سکا اور اسے بند کرنا پڑا۔

منزل
ہفتہ روزہ منزل کے ایڈیٹر اور پبلشر علی حسن تھے۔ انہوں نے 1976 میں اس ہفتروزہ کو باقاعدہ نکالنے کی کوشش کی۔ ان کی ٹیم میں سہیل سانگی، الیاس شاکر، مختار عاقل ، خدابخش ابڑو شامل تھے۔ چند پرچے نکالنے بعد اس پرچے کو بند کرنا پڑا۔ بعد میں ضیا دور میں جب نامور صحافی محمود شام کا ہفتروزہ معیار مارشل
نے بند کیا تو منزل اسی نام سے نکالا گیا۔ لیکن حکومت نے اس پرچے کو بھی بند کردیا۔ 

بیداری
ہفتہ روزہ بیداری دراصل کامریڈغلام محمد لغاری کا تھا۔ مارشل لاد ؤر میں علی حسن نے یہ پرچہ نکالا۔ اس ٹیم میں سہیل سانگی، خدابخش ابڑو، اکبر سومرو شامل تھے۔ پولیس نے ان کے دفتر واقعہ پکھا پیر فلیٹس پر چھاپہ مارا اور تمام رکارڈ اور سامان اٹھا کر لے گئی۔ علی حسن اور اس کے ساتھیوں کو چند روز تک زیر زمین رہنا پڑا۔ 
ہفت روزہ ہدایت اس کا ڈکلیئریشن لکھانو سیال کے نام تھا۔ لیکن وہ کئی برس تک باقاعدگی سے یہ پرچہ نہیں نکال سکے۔صرف قانونی خانہ پوری کے لیے اخبار نکالتے رہے۔ بعد میں شمشیرالحیدری نے یہ پرچہ نکالا۔ لیکن چند ماہ کے بعد اس بند کرید اگیا۔

حیدرآباد اور آزادی صحافت کی تحریک 
ضیاء الحق کے دور میں ملک بھر میں جب آزادی صحافت کی تحریک چلی تو حیدرآباد سے دو صحافیوں نے لاہور میں جاکر گرفتاری پیش کی۔ یہ تھے عبدالغنی درس (عبرت) اور زاہد (آفتاب)۔ دونوں کو قید کی سزائیں ہوئیں اور قید مکمل ہونے کے بعد لاہور سے ہی انہیں رہا کیا گیا۔ 
صحافیوں کی اس تحریک کے دوران حیدرآباد کے مزدوروں، اور طلباء نے بھی گرفتاریاں پیش کیں انہیں بھی قید اور کوڑوں کی سزائیں ہوئیں۔ ان میں مزدور رہنما قلندر بخش مہر، محبوب علی، عبدالحئی، شیر محمد مگریو، ارشاد چنا شامل ہیں۔ یہ لوگ قید کی سزا پوری ہونے کے بعد رہا ہوئے۔
ضیا دور میں صحافی سہیل سانگی کو گرفتار کیا گیا اور جام ساقی کیس میں وہ پانچ سال قید رہے۔ ان پر خصوصی فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا۔ اس مقدمے میں محترمہ بینظیر بھٹو، ولی خان، غوث بخش بزنجو ، صحافیوں میں منہاج برنا، شیخ علی محمد، عبدالغنی درس بطور صفائی کے گواہان پیش ہوئے۔


روز نامہ سندھ نیوز (1975 سے 1980تک)

سندھ نیوز کا اجراء ہوا تب سندھی میں کراچی سے ہلال پاکستان ( پیپلز پارٹی کا ترجمان اخبار)، حیدرآباد سے روزنامہ عبرت (چیف ایڈٰٹر قاضی عبدالمجید عابد، ایڈیٹر خیر محمد کھوکھر)، روزنامہ آفتاب ( ایڈیٹر اور مالک شیخ علی محمد) شایع ہوتے تھے۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو کا دور تھا۔ 

روزنامہ سندھ نیوز 1975 میں شروع ہوا۔ اس اخبار کو پہلا دھچکہ یہ لگا کہ قاضی اکبر کے بیٹے قاضی سلیم جو اخبار کے چیف تھے ان کا اخبار نکالنے سے چند ماہ پہلے انتقال ہوگیا۔ بعد میں ملک میں مارشل لاء لگ گیا جس نے تمام اخبارات کو نقصان پہنچایا۔ مارشل لاء کے چند ماہ بعد قاضی اکبر کا انتقال ہوگیا۔ جس کے بعد اخبار کو مالی مشکلاتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اور بحران کا شکار ہوگیا۔

سندھ نیوز کے دو ادوار ہیں۔ پہلے دور میں یہ اخبار قاضی اکبر فیملی نکال رہی تھی جو اب روزنامہ کاوش ، روزنامہ کوشش، روزنامہ خادم وطن، تی وی چینل کے ٹی این، تفریحی چینل کشش چلا رہی ہے۔1980 میں دوسرے دور میں یہ اخبار روزنامہ عبرت کی ملکیت ہوگیا تھا۔ بعد میں یہ اخبار مکمل اخبار کے طور پر نہیں نکلتا تھا۔

پہلے دور میں اس اخبار کے سنڈے ایڈیشن ( انچارج رحیم بخش برق)، ادبی صفحہ ( انچارج سہیل سانگی)، بچوں کا صفحہ( انچارج سیف بنوی)، اور ہفتہ وار میگزین بھی نکلتا تھا۔ 

پہلے دور کی ٹیم: ایڈیٹر شیخ عزیز، اسسٹنٹ ایڈیٹر سہیل سانگی، نیوز ایڈیٹر عبدالرحمان میمن، رحیم بخش برق،عابد سیف بنوی، اسحاق یوسف جاوید مرزا، محمد عمر، رپورٹر امداد چانڈیو، فوٹوگرافر شجاع الدین شیخ۔ 
19980 کی پہلی ششماہی میں ٹیم کو تبدیل کیا گیا۔ اور یہ سب لوگ چلے گئے۔ 
کالم نویسوں میں علامہ مستانو سیوہانی، ذوالفقار سیال، شیخ اسماعیل، رحیم بخش برق شامل ہیں۔ اس اخبار کے لیے قاضی محمد اکبر بھی مضامین لکھتے تھے۔ 

روزنامہ آفتاب کے صحافی 
شیخ علی محمد( ایڈیٹر اور پبلشر)، محمد بخش جوہر، عبدالرحمان جونیجو (نیوز ایڈیٹر)، احمد خان شیخ، سائیں لائق تھیبو، امتیاز استو، مشتاق باریچو، ناز سہتو، نثار چنہ، 

روزنامہ مہران
سردار علی شاہ (ایڈیٹر)، علی حسن جمالی (نیوز ایڈیٹر)

خادم وطن
خادم وطن کے مالک اور ایڈیٹر لطف علی دل تھے۔ یہ اخبار پہلے میرپورخاص سے نکلتا تھا۔ بعد میں وہ اس اخبار کو حیدرآباد لے آئے۔ ان کے کام کرنے والوں ظہور انصاری، قاضی خادم بھی شامل تھے۔ کچھ عرصے تک رحیم بخش برق اس اخبار کے انچارج ایڈیٹر بھی رہے۔ نوے کے عشرے میں یہ اخبارقاضی اکبر کی فمیلی نے خرید کیا اور اس کو بطور اوؤیوننگر نکالا۔ 

No comments:

Post a Comment